Earn Money Online

بسم اللہ الرحمن الرحیم
”گھر بیٹھے انٹرنیٹ سے پیسے کمائیں“ اس فقرے نے عام انٹرنیٹ صارفین میں بہت غلط فہمیاں پیدا کر دی ہیں۔ لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ بس انٹرنیٹ چالو کرو اور ڈالروں کی مشین چل جائے گی۔ سب سے پہلے یہ ذہن میں رکھ لیں کہ ایسا کچھ نہیں۔ رہی بات کیا گھر بیٹھے پیسے کمائے جا سکتے ہیں؟ جی بالکل کمائے جا سکتے ہیں۔ کیا انٹرنیٹ سے پیسے کمائے جا سکتے ہیں؟ جی ہاں، بہت لوگ کما رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گھر بیٹھے انٹرنیٹ سے پیسے کمائے جا سکتے ہیں لیکن یاد رکھیں محنت کے بغیر کچھ نہیں ملتا۔ وہ جو انٹرنیٹ سے پیسے کماتے ہیں ان کی اکثریت کے پاس کوئی نہ کوئی ہنر یا فن ہوتا ہے اور وہ بہت محنت کرتے ہیں۔ جس طرح عام زندگی میں محنت کر کے پیسے کمائے جاتے ہیں بالکل ایسے ہی انٹرنیٹ پر بھی محنت کر کے ہی کما سکتے ہیں۔ اس تحریر میں آن لائن پیسے کمانے کا سارا کچاچٹھا کھولتے ہیں کہ کس کس طرح پیسے کمائے جا سکتے ہیں اور کہاں کہاں فراڈ ہو رہا ہے۔
انٹرنیٹ سے پیسے کمانے کے لئے کئی طرح کے کام کیے جاتے ہیں۔ کسی کام کی بنیاد ہی انٹرنیٹ ہے یعنی وہ انٹرنیٹ سے متعلقہ کام ہوتا ہے اور کسی میں انٹرنیٹ کو ایک ذریعے (Media) کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ آن لائن پیسے کمانے کے لئے مختلف سروسز فراہم کرتے ہیں۔ جیسے ویب سائیٹ یا انٹرنیٹ سے متعلقہ ایپلیکیشن بنانا، ویب سائیٹ اور ویب سرور وغیرہ کی دیکھ بھال کرنا، ڈومین نیم اور ویب ہوسٹنگ فروخت کرنا، مختلف سرچ انجن میں ویب سائیٹس کا معیار بہتر کرنے میں مدد کرنا وغیرہ وغیرہ۔ سرچ انجن میں ویب سائیٹ کا معیار بہتر کرنے کو ایس ای او (SEO) یعنی سرچ انجن آپٹیمائیزیشن (Search engine optimization) کہتے ہیں۔ آج کل انٹرنیٹ کے ذریعے پیسے کمانے میں سب سے نمایا کام اپنی یا کسی دوسری ویب سائیٹ پر کسی چیز کی تشہیر کرنا، آن لائن چیزیں بیچنا اور کئی قسم کی خریدوفروخت ہے۔ مزید کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جن کے آڈر وغیرہ آپ انٹرنیٹ کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔ جیسے ڈیٹا اینٹری، کسی چیز کا ڈیزائن تیار، مواد کا مختلف زبانوں میں ترجمہ، مختلف سروے اور تحقیق کرنے میں مدد کرنا حتی کہ مختلف کاموں کے لئے مشورے دینا وغیرہ وغیرہ۔
اوڈیسک (oDesk)، ای لانس (Elance) اور فری لانسر (FreeLancer) وغیرہ اس وقت سب سے مشہور ویب سائیٹس ہیں جہاں پر کئی قسم کے کاموں کے آن لائن آڈر مل جاتے ہیں۔ ان ویب سائیٹس کا کام کرنے کا اپنا اپنا طریقہ ہے جو کہ تھوڑی بہت تحقیق کے بعد سمجھ آ جاتا ہے۔ سب سے پہلے ان ویب سائیٹ پر اپنا اکاؤنٹ بنا کر اپنے ہنر اور پہلے سے کیے ہوئے کام کی تفصیل یعنی اپنا پورٹ فولیو (Portfolio) وغیرہ اپنی پروفائل میں فراہم کرنا ہوتا ہے۔ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اپنی آن لائن دوکان سجانی ہوتی ہے تاکہ کام کروانے والے متاثر ہوں۔ مختلف لوگ جنہوں نے کام کروانا ہوتا ہے وہ ان ویب سائیٹ پر اپنے کام کی معلومات فراہم کرتے ہیں اور پھر گھر بیٹھ کر کام کرنے والے اس کام کی بولیاں لگاتے ہیں کہ میں یہ کام اتنے میں کر دوں گا۔ اس کے بعد کام کروانے والے کو جس کی آفر پسند آئے وہ اسے کام دے دیتا ہے۔ کام مکمل ہونے کے بعد حوالے کیا جاتا ہے اور پیسے وصول کیے جاتے ہیں۔ پیسے اس ویب سائیٹ پر آپ کے اکاؤنٹ میں آ جاتے ہیں اور پھر ہر ویب سائیٹ کا اپنا اپنا طریقہ ہے کہ وہ پیسے آپ تک کیسے پہنچائے گی۔ کئی دفعہ آپ کے ساتھ دھوکہ بھی ہو جاتا ہے مگر ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی کام کروا کر آپ کو پیسے نہ دے۔
کام جو بھی ہو لیکن آپ کو اس کا ہنر یا فن آنا چاہئے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ تشہیر (Advertisement) کے لئے کسی مہارت کی ضرورت نہیں۔ یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے کیونکہ مارکیٹ میں اتنی مقابلے بازی آ چکی ہے کہ تشہیر کا فن اب باقاعدہ سائنس بن چکا ہے۔ بے شک جگہ جگہ ایسے اشتہار ملتے ہیں کہ بغیر کسی مہارت کے انٹرنیٹ سے پیسے کمائیں لیکن حقیقت میں اکثر فراڈ ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انٹرنیٹ سے پیسے کمانے کے لئے مہارت کی بھی ضرورت ہے اور ساتھ ساتھ عام زندگی کی طرح انٹرنیٹ پر بھی محنت کرنی اور وقت دینا پڑتا ہے۔
جو ہنر یا فن نہیں رکھتے وہ تشہیر کے کام کو آسان سمجھ کر اس میں کود پڑتے ہیں اور ایسے لوگ ہی فراڈیوں کے ہاتھوں دھوکے کھاتے ہیں۔ تشہیر کرنے کے لئے عام طور پر دو طریقے ہوتے ہیں۔ ایک اپنی ویب سائیٹ بنائیں اور ادھر مختلف اشتہار لگائیں جیسے گوگل ایڈسنس (Google Adsense) وغیرہ۔ جب کوئی اس اشتہار پر کلک کرتا ہے تو فی کلک کے حساب سے پیسے ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف کمپنیاں ایسے اشتہار بھی دیتی ہیں کہ جن کے ذریعے چیزیں فروخت کی جاتی ہیں۔ جب کوئی آپ کی ویب سائیٹ پر موجود اشتہار کی وجہ سے کمپنی سے چیز خریدے گا تو اس میں سے آپ کو حصہ ملے گا۔ اس کے علاوہ تشہیر کا دوسرا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اپنی ویب سائیٹ ہو نہ ہو مگر آپ دوسری مشہور ویب سائیٹ پر کسی چیز کی مشہوری کرتے ہیں اور جتنی مشہوری کریں گے اس حساب سے پیسے ملیں گے۔

اپنی ویب سائیٹ سے پیسے کمانا

اپنی ویب سائیٹ بنا کر اس پر مختلف اشتہار لگا کر پیسے کمائے جا سکتے ہیں لیکن اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ادھر ویب سائیٹ بنائیں گے اور ادھر اشتہاروں سے پیسے ملنے شروع ہو جائیں گے تو یہ آپ کی خام خیالی ہے۔ ذرا سوچیئے کہ آپ کو پیسے یا تو ان اشتہارات پر کلک کرنے سے ملیں گے یا پھر ان اشتہارات کے ذریعے سے چیزیں فروخت ہونے سے ملیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا آپ کی ویب سائیٹ پر روزانہ اتنی ٹریفک یعنی اتنے لوگ آتے ہیں کہ ان میں سے کچھ اشتہارات پر کلک کریں؟ ویب سائیٹ بنا کر فوراً پیسے نہیں کمائے جا سکتے بلکہ پہلے ویب سائیٹ کو مشہور کرنا پڑتا ہے اور اس کی ٹریفک زیادہ کرنی پڑتی ہے۔ اب مشہور تو وہی ویب سائیٹ ہو گی جس کا مواد معیاری ہو گا اور معیاری مواد تیار کرنے کے لئے محنت کرنی پڑے گی اور ساتھ ساتھ اس میں وقت بھی لگے گا۔ لہٰذا فوراً پیسے کمانے یا شارٹ کٹ کو بھول جائیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ خود یا مختلف لوگوں کو کہہ کر اشتہارات پر کلک کروا کر کمپنیوں کو دھوکہ دے کر پیسے کما لیں گے، پہلی بات یہ دھوکہ دہی ہے اور دوسری بات کمپنیاں اتنی بچی بھی نہیں کہ انہیں پتہ نہ چلے۔ وہ فوراً سے پہلے آپ کے فراڈ کو پکڑ لیں گی اور آپ کی ویب سائیٹ کو بلیک لسٹ کر دیں گی۔ بہرحال اگر آپ اچھا لکھ سکتے ہیں یا دیگر کسی قسم کی اچھی ویب سائیٹ بنا کر اسے مشہور کر سکتے ہیں تو پھر ہی ویب سائیٹ سے پیسے کمانے والی طرف جائیں کیونکہ یہاں شارٹ کٹ یا بغیر محنت اور وقت لگائے کچھ نہیں ملنے والا۔ ویسے مایوس نہ ہوں کیونکہ بہت سارے لوگ اپنی ویب سائیٹ بنا کر اس پر اشتہارات جیسے گوگل ایڈسنس سے اچھا بھلا کما رہے ہیں مگر محنت شرط ہے لہٰذا اگر آپ محنت کر سکتے اور وقت دے سکتے ہیں تو آپ بھی پیسے کما سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ لوگ اپنا آن لائن سٹور بھی بناتے ہیں۔ جس کے ذریعے مختلف چیزیں فروخت کرتے ہیں۔ یہ بالکل عام دوکان جیسا ہے بس فرق یہ ہے کہ یہ دکان انٹرنیٹ پر ہوتی ہے۔

دوسری ویب سائیٹ سے پیسے کمانا

تشہیر کے کچھ طریقے ایسے ہوتے ہیں جن میں اپنی ویب سائیٹ ہو نہ ہو مگر آپ دوسری مشہور ویب سائیٹس پر کسی کمپنی یا کسی چیز کی مشہوری کر کے پیسے کما سکتے ہیں۔ یہ ایسا طریقہ ہے جس میں ظاہری کسی ہنر یا مہارت کی ضرورت نظر نہیں آتی اور اسی طریقے کے نام پر ہمارے ہاں عام لوگوں کو سب سے زیادہ فراڈ لگایا جاتا ہے۔ آپ کو جگہ جگہ اشتہار ملیں گے کہ ”فیس بک سے پیسے کمائیں“ یا ”اپنی ویب سائیٹ کے بغیر انٹرنیٹ سے پیسے کمائیں“ وغیرہ وغیرہ۔
اس کام کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ بعض لوگ یا کمپنیاں آپ کو کسی چیز کی معلومات مشہور ویب سائیٹس پر لگانے کا کہتی ہیں۔ معلومات جتنی زیادہ ویب سائیٹ پر لگاؤ گے اتنے زیادہ پیسے ملیں گے۔ اس کام کو عام طور پر ایڈ پوسٹنگ (Ad Posting) کہا جاتا ہے۔ اس سے چیز کی تشہیر ہو نہ ہو مگر چونکہ اس کمپنی کا لنک مشہور ویب سائیٹس پر پہنچ جاتا ہے اور سرچ انجن جب دیکھتے ہیں کہ ان کا لنک تو مشہور ویب سائیٹس پر بھی ہے تو وہ اس لنک والی ویب سائیٹ کو معیاری سمجھ کر اس کا رینک بڑھا دیتے ہیں۔ چیزیں بیچنے سے زیادہ لوگ سرچ انجن میں اپنی ویب سائیٹ کا رینک بڑھانے کے لئے ”ایڈ پوسٹنگ“ کرواتے تھے۔ مگر جب لوگوں نے اس کام کو کاروبار بنا لیا تو سرچ انجن وغیرہ نے اس کا توڑ کرنے کے لئے مختلف کام کیے۔ اب کسی بڑی ویب سائیٹ پر دیئے گئے لنک کو زیادہ تر سرچ انجن اور خاص طور پر گوگل نظر انداز کر دیتا ہے۔ دراصل گوگل نے اس کا حل یہ نکالا ہے کہ بے شک لنک بڑی ویب سائیٹ پر ہو لیکن اگر لنک نوفلو (nofollow) ہو گا تو گوگل اسے نظر انداز کر دے گا۔ بڑی بڑی ویب سائیٹس نے اس طریقے کو فوراً اپنایا اور اب جب کسی بڑی ویب سائیٹ پر کوئی لنک دیتا ہے تو وہ بڑی ویب سائیٹ اسے ”نوفلو“ کر دیتی ہے۔ یوں بڑی بڑی ویب سائیٹس پر لنک دینے کا کوئی فائدہ نہیں رہا اور رینکنگ بڑھانے کے لئے یہ طریقہ اپنی آخری سانسوں پر ہے بلکہ ختم ہو چکا ہے مگر ہمارے ہاں اب بھی اس کام کے نام پر پیسے بٹورے جاتے ہیں۔ پیسے اس طرح بٹورے جاتے ہیں کہ ایجنٹ مافیا قسم کے لوگ کہتے ہیں کہ اتنی سکیورٹی فیس دو اور ہمارے ساتھ ”ایڈ پوسٹنگ“ کا کام کرو۔ جتنے پیسے وہ سیکیورٹی کی مد میں لیتے ہیں، ایڈ پوسٹنگ کے ذریعے اتنے پیسے پورے ہونے سے پہلے ہی کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر اکاؤنٹ بند کر دیتے ہیں یا پھر کئی لوگ بھاگ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی لوگ مختلف ویب سائیٹ کھولنے یا لنکس پر کلک کرنے کے پیسے دیتے ہیں۔ دراصل یہ لوگ ایسے ایجنٹ ہوتے ہیں جو مختلف ویب سائیٹس والوں کو ٹریفک فروخت کرتے ہیں یعنی ان کی ویب سائیٹ کی ٹریفک زیادہ کرنے کے لئے ویب سائیٹ کی تشہیر کرتے ہیں۔ اگر تو اصول کے مطابق تشہیر کی جائے پھر بھی ٹھیک ہو مگر ہوتا یہ ہے کہ ان ایجنٹوں نے آگے مزید بندے رکھے ہوتے ہیں۔ ان بندوں کو ایسے سافٹ ویئر دیئے جاتے ہیں جو تھوڑی تھوڑی دیر بعد آئی پی اور دیگر معلومات تبدیل کر دیتے ہیں۔ یوں ویب سائیٹ مالک کو لگتا ہے کہ اس کی ویب سائیٹ پر یونیک وزیٹر آ رہے ہیں جبکہ حقیقت میں چند لوگ ویسے ہی ویب سائیٹ کھول کر ٹریفک بڑھا رہے ہوتے ہیں۔ یہ سیدھا سیدھا دھوکہ ہے۔ گوگل یا دیگر بڑے سرچ انجن فوراً ایسے کاموں کو پہچان جاتے ہیں۔ یوں ویب سائیٹ کی رینکنگ بڑھنے کی بجائے الٹا ویب سائیٹ کو سرچ انجن میں نقصان ہو سکتا ہے۔ دراصل اکثر سرچ انجنز اور بڑی بڑی ویب سائیٹس کے قوانین کے مطابق ویب ٹریفک کی خروفروخت ممنوع ہے۔ خیر دنیا رنگ رنگ کی ہے۔ سرچ انجن اگر ایک طریقے کو پہچان جاتے ہیں تو لوگ دھوکہ دہی کا نیا حل نکال لیتے ہیں۔ بہرحال دھوکہ دہی غلط ہے اور میرے خیال میں اس طرح پیسے کمانا غلط ہے۔ ویسے یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ وہ دن گئے جب لوگ گوگل کو دھوکہ دے کر پیسے کماتے تھے کیونکہ گوگل اب بچہ نہیں رہا بلکہ ایک تندرست اور موٹاتازہ جوان بن چکا ہے۔ :-) گوگل کو دھوکہ دینا ناممکن نہ سہی لیکن انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔

فیس بک سے پیسے کمانا

آج کل سوشل نیٹ ورک اور خاص طور پر فیس بک سے پیسے کمانے کا کاروبار زوروشور سے چل رہا ہے بلکہ فیس بک تو اس وقت سونے کی چڑیا ہے۔ میرے خیال میں سوشل نیٹ ورک سے پیسے کمانا تب ہی ٹھیک ہو گا جب اس میں کوئی دھوکہ دہی نہ ہو اور سوشل نیٹورک کے قوانین کے مطابق کام کیا جائے۔ اس طریقے میں دراصل لوگ فیس بک پر اپنا پیج، گروپ یا پروفائل بناتے ہیں۔ پھر اس کی خوب تشہیر کرتے ہیں۔ جب حلقہ احباب کا دائرہ وسیع ہو جاتا ہے تو پھر مختلف ویب سائیٹ اپنے لنک کی تشہیر کا انہیں کہتی ہیں۔ لوگ اپنے فیس بک پیج، گروپ یا پروفائل پر لنک شیئر کرتے ہیں اور بدلے میں اس ویب سائیٹ سے پیسے لیتے ہیں۔ یہ سودا حلقہ احباب کے دائرے، لائیکس یا جتنی ٹریفک شیئر کردہ لنک سے ویب سائیٹ کو ملے کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اور تو اور لوگ اپنے فیس بک پیج کے لائیکس بڑھانے کے لئے بھی دوسرے پیجز والوں کو پیسے دیتے ہیں۔ آج کل سیاست دان اس دوڑ میں بڑے شامل ہیں۔ مزید کئی لوگ کسی ”جرنل سے نام“ کا فیس بک پیج بناتے ہیں۔ اِدھر اُدھر کی ہر چیز شیئر کرتے رہتے ہیں۔ دن بدن لائیکس کی تعداد زیادہ ہوتی جاتی ہے اور جب لائیک کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے تو وہ پیج کسی کو فروخت کر دیا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ خریدنے والے کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟ فائدہ یہ ہوتا ہے کہ خریدنے والا اس پیج پر اپنی ویب سائیٹ کا لنک شیئر کر کے اپنی ویب سائیٹ کی ٹریفک بڑھاتا ہے یا پھر وہ بھی دیگر ویب سائیٹس والوں کو ٹریفک فروخت کرتا ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ جو پیج پر پیج بن رہے ہیں اور لوگ ہر اوٹ پٹانگ شیئر کر رہے ہیں، یہ سب ایسے ہی ہو رہا ہے؟ دھندا ہے بھائی جی دھندہ۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ پیج کا نام کچھ اور ہوتا ہے اور اس پر شیئر ہونے والا مواد کچھ اور۔ دراصل پیسے کمانے کے کے لئے مذہب سے لے کر سائنس تک، جذبات سے لے کر رنگارنگ روشنیوں تک، کاروباری لوگ ہر حوالے سے انسان کو قابو کرتے ہیں۔ جب انسان قابو آ جاتا ہے تو پھر وہ اپنے مطلب پورے کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے فیس بک تو اس وقت سونے کی چڑیا ہے کیونکہ فیس بک پر خاص سے لے کر عام انسان تک کا جمِ غفیر جو لگا ہے۔ اوپر سے عوام اپنے ”کلک کی قیمت“ بھی نہیں جانتی اور نہ ہی جاننا چاہتی ہے کہ اس کے ایک کلک سے کون کیا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ ہماری عوام کا تو اللہ ہی حافظ ہے، بغیر سوچے سمجھے شیئر پر شیئر اور لائیک پر لائیک کیے جاتی ہے۔ اب ایسا بھی نہیں کہ ہر کوئی کاروباری نکتہ نظر سے ہی فیس بک وغیرہ پر شیئرنگ کر رہا ہے بلکہ کئی لوگ آگاہی یا دیگر کسی مقصد کے لئے بھی کام کر رہے ہیں۔ ویسے بھی فیس بک یا دیگر ویب سائیٹس کے قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے کاروبار کیا جائے تو میرے خیال میں اس میں کوئی حرج نہیں البتہ دھوکہ دہی غلط ہے۔ یہ دھوکہ چاہے ویب سائیٹ کو دیا جائے یا عوام کو۔
یہ جو جگہ جگہ اشتہار نظر آتے ہیں کہ گھر بیٹھے بغیر اپنی ویب سائیٹ کے فیس بک وغیرہ سے پیسے کمائیں، ایسے اشتہار زیادہ تر ان لوگوں کے ہوتے ہیں جنہوں نے آن لائن پیسے کمانے کے طریقوں کے متعلق باقاعدہ کورس تیار کر رکھے ہیں اور دو چار ہزار روپے میں فروخت کرتے ہیں۔ ابھی جو باتیں میں نے لکھی ہیں ان کورسز میں بھی اس سے ملتی جلتی باتیں ہی ہوتی ہیں یعنی فلاں فلاں ویب سائیٹ پر جائیں، یہ یہ کریں اور پھر پیسے کمائیں۔ پیسے کمانے کا سب بتاتے ہیں مگر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ ”یہ یہ“ کرنے میں کتنی محنت اور وقت لگے گا۔ ”یہ یہ کرنا“ دھوکہ دہی ہے یا نہیں اور اس طرح پیسے کمانا جائز بھی ہے یا نہیں۔ ”یہ یہ کرنا“ کہہ دینا بہت آسان ہے مگر جب کرنے نکلتے ہیں تو بہت محنت اور وقت لگتا ہے۔ کئی لوگ چھ مہینے یا سال تک لگے رہتے ہیں اور جب کچھ ہاتھ نہیں آتا تو بدھو محنت اور وقت ضائع کر کے لوٹ جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو لوگ دھوکہ دہی سے گوگل ایڈسنس کا اکاؤنٹ تک بنا کر فروخت کر رہے ہیں۔ اور تو اور ایسے ایڈسنس کے اکاؤنٹ جن میں پندرہ بیس ڈالر بھی ہوتے ہیں مگر اکاؤنٹ پانچ دس ڈالر میں فروخت ہو رہا ہوتا ہے۔ بندہ پوچھے اگر یہ اکاؤنٹ ٹھیک ہے تو پھر تم پندرہ بیس ڈالر کا اکاؤنٹ پانچ دس میں فروخت کرنے کی بجائے خود کیوں استعمال نہیں کرتے۔ پچھلے دنوں گوگل نے ایسے بے شمار اکاؤنٹ بند کر دیئے تھے۔ ظاہر ہے دھوکے بازی زیادہ دیر نہیں چلتی۔ ویسے اس طرح کی دھوکے بازی کرنے والوں کی وجہ سے کئی صاف لوگ بھی مارے گئے، بہتی گنگا میں وہ بھی بہہ گئے یعنی گوگل کو جس پر ذرا سا بھی شک پڑا اس کا اکاؤنٹ بند کر دیا۔
بہرحال بے شک آن لائن پیسے کمائے جا سکتے ہیں مگر سوچ سمجھ کر اس میدان میں اتریں کیونکہ یہ اتنا آسان بھی نہیں جتنا لوگ سمجھتے ہیں۔ ذرا سوچیں! جو بھی کام کریں گے اس میں محنت اور وقت ضرور لگے گا۔ اس لئے آن لائن پیسے کمانے کو آسان نہ سمجھیں۔ یہ بھی اتنا ہی مشکل اور محنت طلب کام ہے جتنا عام زندگی میں پیسے کمانا ہے بلکہ میں تو اس کو عام زندگی سے زیادہ مشکل سمجھتا ہوں۔ مجھے حیرانی ہوتی ہے جب لوگ بیس بیس گھنٹے کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر مغز ماری کر کے پیسے کمانے کو آسان کہتے ہیں۔ مغز ماری تو ایک طرف، جو صحت خراب ہوتی ہے کیا اس کا کوئی ازالہ ہے؟ آپ دیکھ لیں جو لوگ آن لائن کام کر کے پیسے کماتے ہیں ان کی روٹین انتہائی خراب ہوتی ہے۔ نہ ان کے سونے کا پتہ ہوتا ہے اور نہ ان کے جاگنے کا۔ خیر میں کسی کو آن لائن کام کرنے سے منع نہیں کر رہا، صرف حالات بتا رہا ہوں اور یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ یہ اتنا آسان بھی نہیں جتنا عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں۔ ویسے میرا مشورہ ہے کہ اگر انٹرنیٹ سے پیسے کمانا ہی چاہتے ہیں تو محنت کریں اور کسی ہنر کی بنیاد پر کمائیں یعنی ویب سائیٹ بنانے، ترجمہ کرنے، ڈیزائن تیار کرنے، اپنی آن لائن دوکان (Online Store) یااس جیسے دیگر کام کیونکہ مختلف ویب سائیٹس کے ذریعے تشہیری کاموں کا کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ آج ہے تو کل نہیں۔ بڑی کمپنیوں اور ویب سائیٹس کا کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کس وقت اپنی پالیسی تبدیل کر لیں اور آپ نے سالہاسال محنت کر کے جو ”تشہیری عمارت“ کھڑی کی تھی وہ منٹوں میں گر جائے۔
ویسے تحریر لمبی ہو گئی ہے اس لئے آن لائن پیسے کمانے کے کئی دوسرے طریقوں کو زیرِ بحث نہیں لایا جیسے فاریکس ٹریڈ، ای میلز چیک کرنا، لوگوں کو ای میلز بھیجنا، آن لائن کال سینٹر، ویب سائیٹس مزید کن کن طریقوں سے پیسے کماتی ہیں اور مزید کہاں کہاں انٹرنیٹ صارفین کو دھوکہ دیا جا رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ایسے موضوعات پھر کبھی سہی۔ وہ کیا ہے کہ ابھی جو لکھا ہے اس پر انٹرنیٹ کے سوداگروں سے جتنی باتیں سننی ہیں میرے لئے فی الحال وہی کافی ہوں گی۔